بقیع قبرستان کی کہانی:
بقیع مدینہ میں مسجد نبوی کے مشرق میں کے باہر زمین کا ایک ٹکڑا تھا جس میں غرقد کی جھاڑیاں اگتی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسلمانوں کے لیے قبرستان بنایا اس لیے اس کی جھاڑیوں کو ہٹا دیا گیا۔مدینہ کی ترقی اور اس کی توسیع کے بعد بقیع آج اس کے وسط میں ہے اور اہل مدینہ اور زائرین آخرت کے بارے میں غور کرنے اور آخرت کو یاد کرنے کے لئے اس کی زیارت کرتے ہیں۔ان لوگوں پر سلامتی ہو جو اس میں مدفون ہیں اور انکے لیے دعائیں اور نیک تمنائیں ہیں۔تاریخی سنگ میل:
البقیع میں 10,000 صحابہ کو دفن کیا گیا جن میں بعض امہات المومنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں آپ کے بیٹے ابراہیم اور خلفائے راشدین میں سے سیدنا عثمان بن عفان ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ بقیع کی زیارت کیا کرتے تھے اور اپنے رب کے حکم سے اسکے مدفونین کیلئے دعا کیا کرتے تھے۔بقیع قبرستان کے تاریخی مراحل:
پہلے دور میں اس کے رقبے کا تخمینہ 80 مربع میٹر لگایا گیا تھا، اور معاویہ بن ابی سفیان نے اسے سب سے پہلے پھیلایا، پھر کئی توسیعیں ہوئیں یہاں تک کہ اس کا رقبہ تقریباً 180 ہزار مربع میٹر تک پہنچ گیا، اور امید ہے کہ اس کا رقبہ 30 ہزار مربع میٹر تک پہنچ جائے گا۔
شاہ فیصل بن عبدالعزیز رحمه الله کے دور میں بقیع کا کل رقبہ 5929 مربع میٹر تک پہنچ گیا اور دو دروازے شمالی جانب سے کھولے گئےجو دو مغربی دروازوں کے علاوہ تھے۔ 1390 ھ میں اس کے ارد گرد کنکریٹ کی دیوار کی گئی اور اس کے اندر سیمنٹ ک ے راستے بنائے گئے۔ شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دور میں اس کو مشرق اور جنوب کی جانب میں پھیلایا گیا اور اس کو چاروں طرف چار میٹر اونچی 1700 میٹر لمبی دیوار سے گھیرا گیا اور مغربی جانب ایک بڑا دروازہ قائم کیا گیا اور اس میں جنازے کی تیاری کے لیے ایک خصوصی عمارت تعمیر کی گئی تھی ۔ آخری توسیع کے دوران بقیع کا رقبہ 180 ہزار میٹر تک پہنچ گیا تھا۔