مدینہ کے نشانات

مسجد میقات

تاریخی قدر:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ میں ایک درخت کے پاس حج اور عمرہ کا احرام باندھنے کے لیے ٹھہرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات میرے پاس میرے رب کی طرف سےایک آنے والا آیا اور میں اس وادی عقیق میں تھا ۔اس نے مجھے حکم دیا کہ اس وادی مبارک میں نماز پڑھو ۔اور یہ میقات ہے اہل مدینہ کیلئے اور جو وہاں سے گزرےاور یہ مکہ مکرمہ سے سب سے زیادہ مسافت پر واقع ہے اور شاید اس کی حکمت یہ ہے کہ اہل مدینہ پر اتنا طویل وقت نہ گذرے کہ جس میں اجر عظیم کے حصول کے لیے وہ حرم میں اور حالت احرام میں نہ ہوں ۔ مسجد کے مراحل اور حکومت کی دلچسپی

:

عمر بن عبدالعزیز نے اسے پتھروں سے بنایا، پھر کچھ ادوار میں اس کی تجدید ہوئی۔ مسجد حجاج اور عمرہ کرنے والوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہت چھوٹی تھی۔

شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے اس کی تجدید اور توسیع کا حکم دیا اور اس کی بڑی توسیع شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دور میں ہوئی اور یہ اپنی شکل رقبہ سہولیات اور خدمات کے لحاظ سے ایک شاندار عمارت بن گئی۔

اس جگہ کی برکت اور فن تعمیر کا حسن:

یہ مسجد شہر کے جنوب مغرب میں ذی الحلیفہ میں وادی العقیق کے مغربی جانب مسجد نبوی سے 14 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور وہاں سے حجاج اورمعتمرین با آواز بلند ان کلمات کو کہتےہیں (ترجمہ ) حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں بیشک حمد تیرے ہی لائق ہے ساری نعمتیں تیری ہی دی ہوئی ہیں بادشاہی تیری ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں ۔ یہ مسجد مربع شکل کی ہے اور اس کا تعمیری ڈیزائن منفرد ہے۔اس میں 62 میٹر اونچا ایک سپائرل مینار ہے اور محرابیں لمبے گنبد پر ختم ہوتی ہیں جو زمین سے 16 میٹر بلند ہیں۔اس کا رقبہ اس کی سہولیات کے ساتھ 178 ہزار مربع میٹر ہے۔ اور اس میں 1000 مربع میٹر کی گیلریوں میں الگ الگ راہداریوں کے دو گروپ شامل ہیں۔ مسجد میں 500 سے زیادہ بیت الخلاء ہیں اور ان کے آگے احرام پہننے کی جگہیں وضو اور نہانے کے لیے واش بیسن پارکنگ ایریا اور ایک بازار ہے جودرختوں اور کھجور کے درختوں والی سبز جگہوں کے ساتھ حجاج اور عمرہ کرنے والوں کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ہے۔