مدینہ کے نشانات

رومہ کا کنواں

رومہ کا کنواں اور سیدنا عثمان

رومہ کا کنواں مدینہ کے ان کنوؤں میں سے ایک ہے جو آج بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور، اور اس دور کے مسلمانوں کے رہن سہن کے طریقے کی گواہی دیتا ہے۔اس کا نام عظیم صحابی رومہ الغفاری الکنانی کے نام پر رکھا گیا، اسے بئر عثمان (عثمان رضی اللہ عنہ کے کنویں) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کیونکہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اسے خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا تھا۔

کنویں کا نام اور اسکی جگہ

کنواں دو ناموں سے جانا جاتا ہے:

1. رومہ کا کنواں، غفار کے ایک شخص رومہ کے نام پر رکھا گیا، کنواں اس کی طرف منسوب کیا گیا کیونکہ وہ اس کا مالک تھا۔

2. عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا کنواں ان کے نام پر رکھا گیا کیونکہ انہوں نے اسے خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا تھا۔

یہ کنواں ایک کھیت کے اندر واقع ہے جسے "مزرعة عثمان " (عثمان رضی اللہ عنہ کا کھیت) کہا جاتا یے۔ اور یہ مسجد نبوی کے شمال مغرب میں تقریباً 5 کلومیٹر کے فاصلے پر وادی مبارک جسے وادی عقیق کہتےکے نچلے حصے میں واقع ہے اور یہ السیل کمپلیکس کے قریب ہے۔

کنواں جو جنت میں جانے کا سبب بنا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور اس وقت(مدینہ میں) مسلمان میٹھے پانی کی کمی کا شکار تھے، چونکہ کنوئیں کم تھے ، جو تھے وہ دوسروں کی ملکیت تھے ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنواں خرید کر اسے مسلمانوں کیلئے وقف کرنے پر ابھارا اور ایسا کرنے والے کو جنت میں داخل ہونے کی بشارت دی ۔ چنانچہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اسے خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔

مذکور ہے کہ یہ کنواں ایک شخص کی ملکیت تھا جو اس کا پانی مسلمانوں کو بیچتا تھا اور یہ مسلمانوں کے لیے مشکل تھا کیونکہ ان کے پاس پانی کی قیمت نہیں ہوتی تھی پس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے خرید لیا اور ثواب کے حصول کیلئےاسے مسلمانوں کے پانی پینے کیلئے وقف کر دیا۔

ایک اہم تاریخی یادگار

رومہ کا کنواں مسلمانوں پر وقف کیے گئے اولین اوقاف میں سے ہے، جیسا کہ یہ قصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی مدینہ کی طرف ہجرت کے شروع کے دنوں میں تھا اور یہ ان چند کنوؤں میں سے ایک ہے، جس کا پانی اس وقت میٹھا تھا، اس لیے یہ کنواں تمام مسلمانوں کے لیے بہت اہم تھا۔

یہ کنواں مسلمانوں کے مدینہ میں رہن سہن کے طریقے کا سب سے نمایاں ثبوت شمار ہوتا ہے۔

سعودی دور میں کنواں:

ان تمام صدیوں کے دوران یہ کنواں ایک نمایاں تاریخی نشان رہا ہے جو تاریخ کی گہرائی تک جاتا ہے۔تاریخ اور علمائے حدیث اس کا تذکرہ اور گفتگو کرتے رہے ہیں۔سعودی عرب کی حکومت نے اس کی دیکھ بھال کی طرف توجہ کی، جیسا کہ اس کنویں کے ارد گرد ایک وسیع باغ بنا دیا ،جس کا نام باغ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہے، اور اس کے ارد گرد ایک ماڈل فارم اور کھلیان بنائے. اور پولٹری وغیرہ کے لیےفنی مرکز ی شیڈ بناۓ ۔

یہ کنواں اب وزارت زراعت و پانی کے زیر انتظام ہے، اس کا پانی نکالا گیا اور پھر اس کی مرمت کی گئی، اس لیے اس کا پانی بڑھ گیا۔اس کے چاروں طرف ایک بڑا کھیت ہے جس میں ایک نرسری اور شہد کی پیداوار کیلئے شہد فارم ہے۔

یہ اب بھی موجود ہے اور مدینہ آنے والا اس تک جانے والی پکی سڑکوں سے اس تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔